نجی تعلیمی شعبہ اور استاد کا استحصال!

0

کہتے ہیں کہ ایک اچھا قاری ہی اچھا محرر اور مقرر بھی ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ اچھا قاری مختصر تحریروں سے نہیں بلکہ طویل مطالعہ کے بعد وجود میںآتا ہے ،دوران مطالعہ ہی ایسی تحریریں اگلی تحریروں کی بنیاد فراہم کرتی ہیں ۔ اسی معاصر جہلم اپڈیٹس کا یہ طرہ ہے کہ نجی شعبے کے استحصال زدہ اساتذہ کی بات کر رہا ہے کسی نجی استحصالی مشینری کے چنگل میں پھنسے یا متاثرہ محترم نے پہلی قلم اٹھا کر اتنا بڑا فرض نبھا دیا کہ آواز میں آواز ملانے سے نہ رہ سکا ، خیال آیا کہ شاعر مشرق کے ذیل کے اشعار میں بھی شاید یہی پیغام دیا گیا ہے ۔

کیوں زیاں کار بنوں ، سود و فراموش رہوں
فکر فردا نہ کروں ، محوِ غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں ، اورہمہ تن گوش رہوں
اے ہمنوا میں بھی کو ئی گل ہوں، جو خاموش رہوں

ایک قلمی مسافر ہونے کے ناطے فیصلہ کیا کہ اس محترم محرر کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جائے بلکہ اس پورے نظام کی بیخ کنی کر دی جائے تا کہ سب کچھ عیاں ہو جائے سارے استحصال زدگان پر اور شاید وہ سمجھ سکیں کہ مسئلے کا اصل کیا ہے یا حل کہاں تک ممکن ہے؟ ۔ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ سیاست اور معیشت دو علوم ہیں جن کو جاننے کے بغیر کوئی بھی نظام سیاست ،ریاست اور ،معیشت کو سمجھ نہیں سکتا اس لیے پہلے تو یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ سیاست اور معیشت کون سی دو فاختائیں ہیں؟ ۔

تو سمجھنے کی کوشش کریں کہ سیاست وہ علم ہے کہ جس میں زندگی کے انفرادی سے اجتماعی مسائل کی وجوہات اور حل کے لئے عمیق طریقے سے مطالعہ کیا جاتا ہے ، جہاں تک موجودہ نظام معیشت کا تعلق ہے تو تحقیق تو عالمی معیشت دان آدم سمتھ سے قبل ہی شروع ہو گئی تھی جبکہ ریکارڈو ، رابنز ملر وغیرہ نیز کئی معیشت دانوں نے مزید تحقیق کا سفر جاری رکھا نتیجہ میں تاریخ انسانی جس کا آغاز لاکھوں سال قبل جنگلی اشتراکی زندگی سے ہوا اور جب انسان جنگلوں سے نکل کر میدانوں یا سمندروں کے کنارے آباد ہونے لگا تو نظام تبادلہ رائج و الوقت تھا جس کی چیدہ چیدہ مثالیں آج تک دور دراز آبادیوں میں کہیں کہیں مشاہدہ کو ملتی ہیں ۔یعنی اشیاء کے بدلے اشیاء کا لین دین ہوتا ہے۔

اس نظام کے تحت جب اشیاء کے بدلے اشیاء ، معیار اور مقدار کی مشکلات سامنے آنے لگیں تو سکہ کی ایجاد ہوئی جو شیاید پتھر ،بعد میں قیمتی دھاتوں حتیٰ کہ لوہے تک مروج رہا ۔ آج کاغذ کی کرنسی وجود میں آچکی ہے ۔ اس سارے عرصہ میں جب انسان نے تجارت کا آغاز کیا تو افراد معاشرہ کو اس طرف مائل کرنے کے لئے نفع کا تصور سامنے آیا ۔ جن کی اب تک مختلف اشکال ہیں ۔ قیمت اور نفع پر مبنی معیشت کا سرمایہ دارانہ نظام معیشت وجود میں آیا ۔ ساتھ ہی انسان کی عقلی زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی طاقتوروں نے زمین کو قبضہ میں لے کر زراعت کے میدان میں بھی ذاتی ملکیت کی ابتدا کی۔

کمزوروں کو دستکاری ، کاشتکاری ، ہنر مندی اور فنکاری تک محدود رکھ کر معاشرہ کو مختلف طبقات میں تقسیم کر دیا گیا ۔یہ وہ تمہیدی عبارت ہے جو سمجھانے کی ایک کوشش ہے کہ یہ نجی شعبہ کیسے وجود میں آیا ، قارئین یہ تصور نہ کریں کہ شاید نجی شعبہ تعلیم میں ہونے والے اساتذہ کے استحصال سے صرف نذر کیا جا رہا ہے تو ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ یہ وہ دوڑ ہے جس کے بعد ایک بڑے گڑھا کو با ٓسانی عبور کیا جا سکتا ہے ۔

مقصد یہ ہے کہ ایک محترم نے پرائیوٹ اساتذہ کے استحصال کے متعلق جس قلمی جہاد کا آغاز کیا ہے اس کو مضبوط بنیاد کیسے فراہم کی جائے کہ اس کی قلمی کاوش کچھ نتیجہ خیز ثابت ہونے کے قابل ہوسکے ۔ زندگی کے مختلف شعبہ جات میں تحقیق و تشریح کا سلسلہ تو عرصہ طویل سے جاری ہے تو پہلے تواشتراکی نظام معیشت سے نجی ملکیت کے آغاز کے ساتھ جاگیرداری ، سکہ کی ایجاد کے ساتھ سرمایہ داری اور ان دونوں کے توڑ کے طور پر قدیم اشتراکی نظام معیشت ، جدید اشتراکی نظام معیشت ( سوشلزم) کی شکل میں سامنے آیا جس کا سہرا ممتاز ماہر معاشیات بلکہ کلیمِ بے تجلی زمانہ’’ کارل مارکس‘‘ کے سر جا تا ہے ۔ موصوف نے انیسویں صدی میں شوشلزم ، کمیونزم کا نظریہ سامنے لا کر دنیا کو ششدر کر کے رکھ دیا ۔

نفع کی تاریخی تحقیق کر کے ثابت کیا کہ یہ قدر زائد ہے جو اصل میں محنت کرنے والے کا ہی حق ہوتا ہے ۔ دولت مند جب سرمایہ دار کا کردار ادا کرتا ہے تو نفع کی شکل میں محنتی کا استحصال کرتا ہے اور جس کو آفاقی فضل کے نام سے برکت کا نام دیا جاتا ہے بات کچھ طویل ہو رہی ہے لیکن نظریہ کی اصل تعریف ہی یہی ہے کہ وہ بات جو آسانی سے سمجھ آجائے ، پھر وہ بات با ٓسانی سمجھائی جا سکے اور قابل عمل بھی ہو ۔نظریہ کہلا سکتی ہے۔

اس لئے اس وقت زیر نظر سطور کے مقصد کے طور پر سمجھانے کی بات یہ ہے کہ مشین کا مزدور ہو یا نجی تعلیمی ادارے کا استاد ہو دونوں کی محنت کے نتیجے میں مزید نجی ادارے وجود میں آنے سے ہی اس استحصالی نظام کا فروغ جاری رہتا ہے جس کو عرف عام میںسرمایہ داری نظام کہا جاتا ہے، اسی طرح ہزاروں لاکھوں ایکٹر اراضی کی یا دیو ہیکل عمارات کی ملکیت جاگیرداری کہلاتی ہے جبکہ استحصال سے پاک معاشرہ اور معیشت صرف اور صرف سوشلسٹ نظام معیشت میں ممکن ہے۔

دنیا بھر میں لوٹ کھسوٹ کے نظام کا جاری رکھنے والوں نے ایک نیا نام ’’ مخلوط نظام معیشت ‘‘کا ظاہر کیا ہے لیکن صرف ملکی شہریوں کو چند ایک بنیادی حقوق دے کر منڈی کو پھر بھی کسی حد تک آزاد کر دیا جاتا ہے تو شہری اپنی معاشی ضروریات کو پورا نہیں کر پاتے دن بھر کئی شعبہ جات میں مختلف اشکال میں محنت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

جیسا کہ بعض یورپی ممالک میں صورت حال موجود ہے ۔نجی ملکیت شعبہ تعلیم کی ہو یا صنعت کی ہو یا زرعی اراضی کی ہو استحصال کے بغیر پنپ ہی نہیں سکتی ۔ جہاں تک پاکستان میں رائج نجی شعبہ تعلیم کا تعلق ہے تو 1970 ء سے پہلے عروج پر تھا پھر عوام کی سیاست کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کا دور آیا جس نے اپنے چار نکاتی سیاسی منشور میں نظام سوشلزم کو متعارف کرایا اور حکومت میں آکر چند ایک ایسے اقدامات کیے جن کے اثرات آج تک موجود ہیں ۔

1972ء تا 1977ء پانچ سالہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پہلی مرتبہ پاکستان بھر کے ملازمین کے لئے ماہانہ تنخواہوں کے پے سکیل متعارف کرائے گئے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور بنیادی طور اشتراکیت ( سوشلزم) پر قائم کیا گیا تھا۔ یعنی ہر پاکستانی شہری کو روزگار ، رہائش ، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات کی ضمانت سے سرفراز کر نا تھا ۔

ملک بھر میں قائم دیو ہیکل پرائیویٹ تعلیمی اور صنعتی اداروں کو قومی ملکیت میں شامل کرتے ہوئے شاید غلطی سے لیبر ٹریڈ یونین کی بجائے ریاستی افسر شاہی کی حکمرانی کے حوالے کر دیا گیا ۔ یہ سب پالیسی سازوں کا کیا دھرا تھا جس کے نتیجے میں عوام ، مزدورں ، کسانوں اور کھیت مزدورں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور سوشلزم کا چہرہ مسخ کر کے غلط چہرہ پیش کیا گیا ۔ حالآنکہ ریاستی یا قومی ملکیت ہی سے عوام کے حقوق کی بازیابی ممکن ہو تی ہے ۔ حقیقت میں سوشلزم ایک شاندار انقلابی پروگرام تھا ۔

تعلیمی اداروں کو سرکاری سرپرستی میں لینے کے بعد اساتذہ کرام کا مقام بحال ہوا اور سرکاری حیثیت سے فروغ پانے لگا ۔ جہاں تک نجی شعبہ کا تعلق ہے تو اس پانچ سالہ دور میں اکا دکا نجی تعلیمی ادارے باقی رہ گئے تھے جہاں سرکاری تعلیمی ادارے تا حال قائم نہیں کیے جا سکے تھے ۔ یا حکمران اشرافیہ کے بچوں کے لئے الگ سے نظام تعلیم قائم کیا گیا تھا تاہم اکثریت تعلیمی ادارے سرکاری سرپرستی میں خدمات سر انجام دینے لگے ۔

جن پے سکیلز کا ذکر سطور بالا میں کیا گیا ہے ان کے ساتھ ہی ملازمت کی عمر اور تاحیات پنشن کے قوانین بھی بنائے گئے ۔ جن کے ثمرات سے آج تک پاکستانی عوام تک پہنچ رہے ہیں ۔ اب پاکستان کی بد قسمتی کہ 1977ء کے الیکشن کے نتائج کو حذب اختلاف کی طرف سے یکسر مسترد کر دیا گیا مخصوص منصوبہ بندی کے تحت حکومت مخالف تحریک چلائی گئی جو مارشل لا کی طویل تاریک رات کا آغاز ثابت ہوئی ۔

حکمرانی کے’’ ہما‘‘ نے جس سر کا انتخاب کیا وہ تھے جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم جن کی ترجیحات میں عوامی مفاد میں دیے جانے والے سرکاری شعبہ جات کو جلد از جلد نجی شعبہ کو واپس کرنا تھا اور ایسے ہی کیا گیا اور ملک بھر میں ایک منصوبہ بندی کے تحت مہم چلائی گئی کہ سرکاری شعبہ کے زیر نگرانی چلنے والے ادارے بجائے قومی مفاد کے نقصان میں ظاہر کیے گئے۔ مخصوص سازشی انداز میں سرکاری شعبہ تعلیم کی مخالفت کی جانے لگی اور نجی شعبہ کی حوصلہ افزائی کی جانے لگی ۔

1977ء سے لے کر آج تک 46سالوں میں شعبہ تعلیم میں پھر ایک مرتبہ دیو ہیکل قسم کے نجی تعلیمی ادارے قائم ہو چکے ہیں اور اس قدر زور آور ہو چکے ہیں کہ حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں ۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود جس محترم نے نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے استحصال کی بات کی ہے وہ قابل صد خراج تحسین ہے ۔

سرمایہ داری نظام کے اس چنگل میں وقتی حل کچھ اسی طرح ہے کہ حکومت پاکستان بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر پر دستخط کر چکی ہے ۔ ان حقوق میں اپنے حقوق کے حصول کے لئے ملازمین ، مزدورں ، طلبہ ، اساتذہ اور محنت کشوں ،کھیت مزدوروں اور مزارعین کو بین الاقوامی طور پر انجمن سازی ( یونین سازی) کا بنیادی حق حاصل ہے ۔

پہلی صورت میں تو کاش پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آجائے تو نجی شعبہ تعلیم جو عوام ، اور اساتذہ دیگر ملازمین کے استحصال سے عبارت ہے۔ کی 1972ء کے دور کی طرح بیخ کنی تو شاید نہ ہو سکے لیکن اس استحصال کو لغام لازمی دیا جا سکتا ہے ۔کیونکہ آج پاکستان پیپلز پارٹی بھی وہ سوشلسٹ پارٹی نہیں ہے بلکہ اب وہ سوشل ڈیکوکریٹ ، لبرل،ماڈریٹ پارٹی ہو چکی ہے اپنے منشور میں سوشلزم کو معیشت کا درجہ نہیں دیتی بلکہ عمرانی معائدے کی بات کرتی ہے ، تاہم اچھی امید بھی ایک بڑی بات ہوتی ہے ۔

اس توقع کے علاوہ یہ تجویز ہے کہ نجی شعبہ کے استحصال زدہ ملازمین خصوصاً اساتذہ کرام کو ہمت کر کے پہلی قلم اٹھانے والے انقلابی کے ہاتھ اور پاؤں بن کر ہمت کرنا پڑے گی اور انجمن ( یونین) یا ایسوسی ایشن کی طرف چند قدم اٹھانا ہوں گے ۔ جس دلیر انسان نے اس استحصال کی طرف توجہ دلائی ہے وہ عام لکھاری نہیں ہے بلکہ وہ ایک انقلابی کردار کا مالک ہے ۔ کیونکہ تحقیقی اعتبار سے ہر وہ فرد جو بے سہارا عورت کے ڈوبتے ہوئے بچے کو بچانے ، یا مکان میں لگی آگ سے بچانے کے لئے سب سے پہلے چھلانگ لگاتا ہے وہ انقلابی صفت ہوتا ہے اور تاریخ میں ایسے کردار ہی امر ہو تے ہیں ۔ یہی جذبہ ذہن نشین کرتے ہوئے پرائیویٹ سکول ٹیچر ایسو سی ایشن یو یونین کے لئے ہمت کر نا پڑے گی ۔ راستہ اتنا آسان نہیں ہے لیکن اپنے حقوق کی خاطر انسان بہت کچھ کرنے کو تیار ہوتا ہے۔

ہمارے وطن عزیز میں پرائیویٹ سکول مینجمنٹ اتھارٹی اور ایسوسی ایشن کا قیام عمل آ سکتا ہے تو پھر ان عظیم اساتذہ کو بھی علم ہونا چاہیے کہ پرائیوٹ سکول /کالج ٹیچر ایسو سی ایشن کا قیام ہر گز ناممکن نہیں ۔

اس لئے جہلم اپڈیٹس کی زینت بننے والا یہ مضمون پہلے قلمی کے لئے لازمی حوصلہ افزائی کا سامان لازمی مہیا کرے گا اور یہ اس جد و جہد کا نکتہ آغاز ثابت ہو گا کہ مستبقل میں پرائیوٹ سکولوں اور کالجوں میں ملازمین اور اساتذہ کے حقوق کا واقعی تحفظ ہو گا اور سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے برابر مراعات میسر آسکیں گی ۔

ای میل [email protected]
فون نمبر:03065430285
03015430285

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Get real time updates directly on you device, subscribe now.

اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.