میں آفس میں افطاری کے لیے اوپر سے نیچے آیا جہاں ادارے کے ایگزیکٹیو لوگوں کے لیے افطار کا اہتمام کیا گیا تھا۔ منیجر لیول کے ایک دوست نے کہا میاں صاحب آج سپریم کورٹ کو خسی کردیا جائے گا۔ ان کی بات سنتے ہی میں نے بلند بانگ قہقہہ لگایا جس سے پورا ہال گوج اٹھا۔ افطار سے چند منٹ پہلے تک سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے معاملے پر ہماری بحث چلتی رہی۔
افطار اور نماز سے فارغ ہوکر جب میں دوبارہ نیوز روم گیا تو پتہ چلا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سوموٹو کے حوالے سے قانونی مسودے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ نئی تجاویز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان سے سوموٹو لینے کا اختیار چھین لیا گیا ہے اب یہ اختیار کمیٹی کے پاس ہوگا جس میں تین سنئیر ججز شامل ہوں گے اور سوموٹو پر اپیل کا حق بھی دینے کی منطوری دے دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ ترمیمی بل 2023 وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اسمبلی میں پیش کیا گیا جسے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے منظوری کے لیے قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔ یہ ایک بڑی اور چونکا دینے والی خبر تھی۔ لیکن ن لیگ کی جانب سے آئین اور قانون کے ساتھ کھلوڑ پہلی دفعہ نہیں کیا گیا۔ مسلم لیگ نون جب بھی اقتدار میں آتی ہے تو اپنے مفادات، لوٹ مار، کرپشن اور دیگر کیسز ختم کروانے کے لیے ایسی گھٹیا حرکتیں کرتی رہتی ہے۔ اس دفعہ یہ الیکشن سے بھاگنے کے لئے آئین انخراف کرنے کا جواز بنا رہی ہے۔ یقیناً آپ نے ایک مہاورہ تو سنا ہوگا کہ اڑتے تیر کو ہاتھ میں لینا۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے از خود نوٹس لینے کا حق چھن کر انہوں نے اڑتے تیر کو ہاتھ میں لے لیا ہے۔ جان بوجھ کرعدلیہ کو منتازعہ بنایا جارہا ہے تاکہ کسی طرح الیکیشن سے بھاگ سکیں۔
ن لیگ کو امپائر کو ساتھ ملا کر الیکشن لڑنے کی عادت پڑچکی ہے کیونکے اقتدار کی خاطر ہمیشہ انہوں نے پالش اور پیسے کا کھلے عام استعمال کیا۔ اس دفعہ جب پاکستانی عدلیہ نے جھکنے سے انکار کیا تو انہوں نے عدلیہ کو بدنام کرنے اور الیکشن منتازعہ بننے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارت میں کمی کردی تاکہ کسی طرح الیکشن نا ہوں۔ کیونکہ عدالتی احکامات کے مطابق 90 روز میں الیکشن کروانا تھے جو انہوں نے الیکشن کمیشن کے ساتھ ملکر اکتوبر تک ملتوی کردیئے ہیں۔
اب دوسری طرف پی ٹی آئی نے الیکشن ملتوی ہونے پر دوبارہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے۔ جس کے بعد ن لیگ نے پہلے عدلیہ کو خریدنے کی کوشش کی لیکن جب بات نہیں بنی تو اختیارات میں کمی کردی گئی اور ایسا یہ ماضی میں بھی کرتے آئے ہیں۔ آپ نے ملک قیوم والا قصہ سن رکھا ہوگا جو 2001 میں بڑا مشہور ہوا تھا۔ جس نے پوری قوم کی آنکھیں کھول دیں تھی۔ اس وقت ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ملک قیوم نے استعفیٰ دیا تھا اور ان پر بددیانتی کا الزام لگا تھا کیونکہ ملک قیوم کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو کرپشن کیسز میں سزا سنائی تھی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں بینظیر بھٹو نے مارچ انیس سو ننانوے میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی تھی۔
فروری دو ہزار ایک کو برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز نے بتیس ٹیپوں کی بنیاد پر ایک تفصیلی خبرشائع کی جس سے یہ ظاہر ہوا کہ ملک قیوم نے بینظیر اور آصف زرداری کو سیاسی بناء پر سزا سنائی تھی۔ ان ریکارڈنگز میں ملک قیوم نواز شریف حکومت میں احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمٰن سے سزا کے سلسلے میں حکم مانگ رہے تھے۔
آڈیو ریکارڈنگ میں ملک قیوم نے پوچھا ’آپ بتائیں کہ آپ کتنی سزا دینا چاہتے ہیں اس (بینظیر) کو؟’اس ریکارڈنگ کے سامنے آنے پر سپریم کورٹ نے بینظیر کی اپیل کے حق میں فیصلہ دیا اور ہائی کورٹ کی سزا ختم کردی تھی۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ملک قیوم نے یہ فیصلہ سیاسی بناء پر دیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیشہ ورانہ بد دیانتی کے الزامات سامنے آنے پرملک قیوم نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ لیکن اس بار 1999 نہیں ہے۔ عدلیہ آزاد ہے۔
کہتے ہیں جو ریاستیں انصاف کی مناسب فراہمی کو یقینی بناتی ہیں ترقی ان کے ہی قدم چومتی ہے۔ جہاں غریب اور امیر عدالت میں یکساں حیثیت سے پیش ہوتے ہوں وہاں عوام ریاست پر اپنا حق تسلیم کرتے ہیں اور ہر فرد ریاستی مشینری کا حصہ بن جاتا ہے۔ جہاں حکمران انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہوتے ہوئے خود کو ممتاز نہ سمجھے وہاں کا عام شخص بھی قانون توڑتے ہوئے ہزار بار سوچتا ہے۔ اس لیے ریاست کی ترقی میں انصاف کا کلیدی کردار ہے۔ لیکن آج ہمارے ملک کے حکمران اپنے ذاتی خواہشات کے مطابق فیصلے نا ہونے پر انصاف فراہم کرنے والوں کو ہی بدنام کررے ہیں تاکہ نہ رہے گا بانس اور نا بجے گی بانسری