بھوک کے پیاس کے خطرات سے ڈر جاتا ہے
مار کے اپنے ہی بچوں کو وہ مر جاتا ہے
ہر طرف اس کی ہی محنت کے مظاہر ہیں مگر
بھوک کے ہاتھ سے مزدور بکھر جاتا ہے
شہداء شکاگو کی یادیں یوم مئی کے بعد بھی ماند نہیں پڑتی یہ یادیں سدا بہار ہیں کیونکہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی موجودگی میں محنت جسم کی ہو یا ذہنی صلاحیتوں کی کسی بھی شکل میں استحصال سے پاک نہیں ہو سکتی۔اس کے نتیجہ میں ہر روز یہ محنت بکھرتی اور مرتی ہے۔ معاشی انقلاب صدیوں بعد رونما ہوتے ہیں اہل عقل /قلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوران حیات اپنا حصہ بمطابق صلاحیت شامل کرے بغیر پھل دیکھے اس جہان فانی سے رخصت ہو جائے۔
ڈیڑھ صدی میں سے صرف 13سال باقی ہیں یعنی 137سال قبل امریکہ کے شہر شکاگو کے فولاد کے کارخانوں کو چلانے والے مزدور اپنے مالکان کے لئے بیش قیمت سرمایہ ( کستوری جیسا منافع ) پیدا کرنے والے محنت کش گزشتہ عرصہ سے سرمایہ دار استحصالی طبقہ سے اوقات کار جو12گھنٹے سے 18گھنٹے یومیہ تک پھیلے ہوئے تھے کو کم کرنے ، نیز بنیادی سہولیات میں اضافہ کا مطالبہ کر رہے تھے۔
جب انکی یہ کاوشیں بے نتیجہ ثابت ہونے لگی تو کرہ ارض کی ارتقاء کے خالقان، ان دستان ِدولت آفرین نے اجتماعی طور پر اپنی کوششیں تیز کر دیں اور جلسے جلوسوں کے ساتھ بات ہڑتال تک پہنچ گئی ۔ کارخانوں کے پہیے رک گئے اور ان مزدوں کی محنت سے حاصل ہونے والی کستوری ( بیش قیمت منافع ) جو سرمایہ بنتا ہے ، ہڑتال کے نتیجے میں رکنے لگا اور سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے تحفظ کی خاطر قائم ریاستی انتظامیہ حرکت میں آئی ۔
اپنے حق کی خاطر بر سر پیکار مزدوروں پر گولی چلا دی گئی اس گولی کے نتیجے میں اپنے حقوق کی جنگ میں شہید ہونے والے مزدوروں کے بے گناہ خون سے عالمی سطح پر مزدور تحریک کی پہچان کا نشان جو کہ پوری دنیا میں سفید رنگ کا تھا یعنی محنت کش ایک امن کا نشان دیتے تھے وہ جھنڈا بیان بالا گولی کے نتیجے میں مزدور کے خون سے سرخ ہو گیا جو آج بھی محنت کش کا عالمی نشان مانا جا تا ہے ۔
وقت کے تقاضوں کے مطابق جس طرح کرہ ارض پر لاکھوں سالوں سے ارتقاء کا عمل جاری ہے اسی طرح محنت یا مزدور کی شکل بھی تقاضاء حاضرہ کے مطابق کافی حد تک تبدیل ہو گئی ہے ، پہلے تو ہر وہ فرد مزدور یا غلام ہوتا تھا جس کی محنت کا کسی بھی شکل میں استحصال کیا جاتا تھا آج نہ صرف جسمانی محنت کا استحصال ہوتا ہے بلکہ فکری طور پر بھی سوچ پر پابندی ہوتی ہے جو استحصال کی ایک نئی شکل ہے ۔
ضرورت شاید اس امر کی ہے کہ مزدور یا محنت کش استحصا ل زدہ کسان کھیت مزدور کا عالمی سطح پر ہتھوڑا اور درانتی ہے ، وقت کے تقاضوں کے مطابق اس نشان پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا بھر میں محنت کی شکل تبدیل ہو گئی ہے جدید سائنسی ایجادات کے بعد محنت ہاتھوں سے مشینوں اور پھر کمپیوٹر پر منتقل ہو گئی ہے ۔
سرمایہ داران معاشی نظام کے چنگل میں پھنسا نظام معیشت کمپیوٹر پر انٹر نیٹ کے ذریعے محنت کے نتیجے میں دن رات محنت کرنے والے نوجوانوں کا استحصال کرتا ہے ۔ اس لئے یہ استحصال کی جدید شکل ہے، تجویزپیش ہے کہ عالمی سطح پر مزدور تحریک کو حالیہ کمپیوٹر مشینوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مزدور یا محنت کش کسان کے عالمی نشان ہتھوڑے ، درانتی کے ساتھ کسی طرح کمپیوٹر کو شامل کرنے پر غور کیا جائے کیونکہ آج کارخانہ کے ساتھ ساتھ زراعت کااکثر حصہ ٹریکٹر ، تھریشر اور ہارویسٹر پر منتقل ہو گیا ہے اس لئے محنت کش کا عالمی نشان بھی بڑی تبدیلی کا متقاضی ہے ۔
یہاں یہ واضح کیا جاتا ہے 1886ء کو یکم مئی کے دن جن مزدوروں کے خون سے یہ امن کا نشان ہمیشہ کے لئے سرخ ہو گیا ، ان کی اس بیش قیمت قربانی کے نتیجے میں 12،16اور 18گھنٹے کے اوقات کار یومیہ 8گھنٹے تک کم کر دیے گئے آج پوری دنیا میں شہر و دیہات میں صرف 8گھنٹے تک کے اوقات کار مقرر ہیں ۔
سرکاری یا نجی شعبہ میں ہر محنت کش مزدور اپنے مقررہ وقت کے ختم ہونے کے ساتھ ہی کام سے چھٹی کرنا اپنا حق گردانتا ہے اس حوالے سے یہ قلم کا طالب علم یہ سطور لکھ کر ایک تدریسی فریضہ ادا کرنا چاہتا ہے کہ ہر محنتی اور مزدور کو علم ہونا چاہیے کہ یہ جو یومیہ اوقات کار مقرر ہیں ان کی بنیاد اصل میں امریکہ کے شہر شکاگو میں ہونے والے اس واقع میں شہید ہونے والے وہ مزدور ہیں جن کی قربانی بلا امتیاز مذہب ، علاقہ یا وطن یا نسل تھی اس لئے ہمیں علم ہونا چاہیے کہ محنت کش مزدور یا کسان کے استحصال کے خاتمے کی تحریک کا تعلق ہر گز دنیا کے کسی بھی مذہب سے نہیں ہے۔
یہ صرف ایک معاشی نظام کی فکر ی تحریک کا نام ہے جس کا بانی عالمی معیشت دان کارل مارکس ہے جس نے زندگی بھر کی تحقیق کے بعد دنیا کو ایک نئے نظریے سے روشناس کرایاجس کا نام ہے ’’ قدر زائد‘‘ کا تعارف جس کو سرمایہ دارانہ معیشت کے بانی آدم سمتھ نے منافع کا نام دیا ہے ۔
منافع کو بیان بالا عالم ِ معیشت کارل مارکس نے ابتدائی طور پر محنت کش کا بنیادی حق قرار دیا نیز اس نے تو اس نام نہاد منافع کے نتیجے میں ـحاصل ہونے والی دولت یا سرمائے کو محنت کش کے حق کی چوری کا نام تک دے دیا جس کی وجہ سے معاشرے میں معاشی عدم مساوات قائم ہوتی ہے معاشی ناہمواری ہوتی ہے جس کو انسانی قسمت یا مقدر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے بلکہ نظام معیشت جو بے ہنگم نجی ملکیت پر مشتمل ہوتا ہے اس میں زرعی زمین جو کسانوں ، کھیت مزدوروں کی محنت کے نتیجہ میں سونا اگلتی ہے کی لامحدود نجی ملکیت بھی شامل ہوتی ہے۔ ( جاری ہے )
ای میل [email protected]
فون نمبر:03065430285
03015430285