مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی اور یہی نہیں انے والے وقت میں ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہو گی اس ہوش ربا مہنگائی کی وجہ آئی ایم ایف نہیں بلکہ ہمارے حکمرانوں اور اشرافیہ کی عیاشیاں ہیں جن کے لیے غربت میں ڈوبی عوام کا خون پسینہ نچوڑنا فرض کر لیا گیا ہے۔
بجلی کی بلوں میں روز بروز اضافہ سے ساٹھ فیصد شہری بجلی کے بل ادا کرنے سے قاصر ہیں اور دوسری طرف اشرافیہ اور اعلی افسران کو کئی سو یونٹ بجلی مفت دی جا رہی ہے اس سے زیادہ بجلی بڑے بڑے کارخانے دار چوری کر رہے ہیں جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ واپڈا کے کرپٹ افسران منتھلیاں لے کر اس کو لائن لاسز کا نام دیتے ہیں جس کا نقصان بھی غریب عوام سے ہی پورا کیا جاتا ہے اس کی مثال بجلی کے بلوں میں بنے درجن بھر ٹیکسز کے کالم ہیں جو اب ایک بھی خالی نہیں رہا۔
دوسری طرف غیرمنصفانہ بجلی کے بھاری بل ادا نہ کرنے والے غریب اور سفید پوش شہریوں کی بجلی کاٹ کر میٹر اتارے جا رہے ہیں ایک محطاط اندازے کے مطابق بیس فیصد سے زائد کنزیومرز کی بجلی عدم ادائیگی کی وجہ سے منقطع کی جا چکی ہے۔
دنیا میں پٹرول کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود پاکستان میں مسلسل بڑھائی جا رہی ہیں جبکہ روس سے سستا تیل خریدنے کے دعوے دار اور نعرے لگانے والوں نے روس سے خریداری کے کے باوجود عوام کو ریلیف نہیں دیا ۔پٹرولیم مصنوعات میں دن بدن اضافہ سے مہنگائی کا سونامی اچکا ہے جس کا اثر بلواسطہ عوام پر ہی پڑ رہا ہے۔
بے روزگاری کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا کو مستقبل قریب میں تک رکنے کا نام نہیں لے گا ۔ مہنگائی ،بے روزگاری اور افلاس کے باعث غریب اور مڈل کلاس طبقہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو چکا ہے۔ ٹینشن اور ڈپریشن کے مریضوں میں اضافہ پو رہا ہے آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں رو تو کوئی چہرہ آپ کو ہشاش بشاش نظر نہیں آئے گا۔ ہنسی مذاق کرنے والے خاموش نظر آئیں گے۔ چڑچڑا پن ہر دوسرے شخص میں واضع ہے گھروں میں میاں بیوی کے جھگڑے معمول بن چکے ہیں حتیٰ کہ بچوں کے چہروں سے بھی معصومیت چھنتی نظر اتی ہے۔
بازاروں میں دوکاندار سارا دن گاہکوں کے انتظار میں بیٹھے نظر ائیں گے لوگوں سے وقت خرید چھین لی گئی ہے لوگ خودکشیوں پر مجبور ہیں مگر حکمران اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ انہیں اپنی عوام بھیڑ بکریوں سے سے بھی کم تر نظر اتے ہیں اور اس کی وجہ بھی ہم عوام ہی ہیں ہم ظلم سہنے اور غلامی میں اس قدر رچ بس گئے ہیں کہ اپنے حق کے لیے بول ہی نہیں سکتے اور یہی وجہ ہے کہ ہم پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور ہم خاموشی سے ظلم سہہ رہے ہیں۔
یہ کہا جائے کہ ہم قوم نہیں ایک ہجوم ہی تو غلط نہ ہو گا اور ہزاروں بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کو ہانکنے کے لیے ایک ڈنڈا بردار چرواہا اور دو کتے ہی کافی ہوتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ ان ہزاروں کو اپنی طاقت کا اندازہ نہیں ہے ان کو جہاں ہانکیں گے یہ ادھر چل پڑیں گے یہ اپنی مرضی سے سرسبز گھاس اور اپنی مرضی سے پانی تک نہیں پیئں گے۔
آئندہ الیکشن کا موسم ہونے والا ہے اور اس کے لیے ہمارے قائدین ایک نئے نعرے ایک نئے خواب کے ساتھ ہاتھ باندھے اپ کے سامنے آئیں گے اور بیروزگاری ،مہنگائی افلاس کو ختم کرنے کے دعوے کرتے ہوئے آپنے اپ کو عوام کے خادم کہیں گے اور ہم میں سے ہی بہت سے لوگ ان کے نعرے لگاتے ہوئے ان کے لیے جلسے جلوس اور ریلیاں نکالیں گے مگر اپنے حق کے لیے نہ جلوس نہ ریلی نہ جلسہ کیونکہ ہمیں اتنا ڈرا دیا گیا ہے کہ ہم سچ بولنے سے بھی ڈرتے ہیں اور جو یہاں سچ بولنے کی جرات کرتا ہے اس کی زبان کاٹ دی جاتی ہے۔
لاقانونیت انتہا کو پہنچ چکی ہے طاقتور کے لیے الگ قانون اور کمزور کے لیے الگ آنے والے وقت میں ہم اپنے بچوں کو پڑھانے سے قاصر ہونگے ،اپنے بچوں کو پیٹ بھر کھانا نہیں کھلا سکیں گے، مگر یہ ہر ظلم کی انتہا اور ہر رات کی صبح ضرور ہے مگر ان کے لیے کو رات کی تاریکی میں بیٹھ کر خاموشی سے صبح کا انتظار نہیں کرتے بلکہ اپنے لیے روشنی کا بندوبست کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں۔
اپنے بچوں کا پیٹ کاٹنے اور خودکشیاں کرنے کی بجائے ان چوروں لٹیروں کا گریبان پکڑیں جنہوں نے آپ کے وسائل پر قبضہ کیا ہوا پے اپنی طاقت کو پہچانیں اور اپنے لیڈروں سے سوال کرنے کی جرات کریں کیونکہ یہ لیڈر تب ہیں جب اپ ان کو لیڈر مان کر ووٹ دیں گے۔
اپنے لیے نہ سہی اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے اٹھیں اور سوال کریں کہ ہمارے وسائل پر چند اشرافیہ کیوں قابض ہیں ۔
اٹھیں اور بھیڑ بکریوں کے ہجوم سے ایک قوم بنیں !!!
پاکستان پائندہ باد