جہلم: ڈسٹرکٹ جیل کے ہیڈ وارڈن نے سپرٹنڈنٹ کے اختیارات سنبھال لئے ، جیل کے اندر جنگل کا قانون نافذ، ماہِ صیام میں بھی جیل کے اندر لوٹ مارکا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ،جیل انتظامیہ نے حوالاتیوں کو ریلیف فراہم کرنے کی بجائے سختیاں کرنا شروع کر دیں۔ حوالاتیوں نے جسٹس آف پیس سے رجوع کر لیا۔
اس بارے میں دینہ کے رہائشی نے جسٹس آف پیس کو تحریری درخواست دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سائل ڈسٹرکٹ جیل جہلم میں بارک نمبر1 کا حوالاتی و قیدی ہے ، جس کا ہیڈ وارڈن شہباز ہے،رواں ماہ20 مارچ کو میرے پاس مبلغ 4 ہزار 5 سو روپے تھے جو کہ ہیڈ وارڈن شہباز نے لے لئے جس میں سے 3 ہزار روپے ہیڈ وارڈن نے حامد نامی شخص کو دے دئیے جب میں نے اپنی رقم کی واپسی کا تقاضا کیا تو ہیڈ وارڈن شہباز نے مجھے گالی گلوچ دینا شر وع کر دی میں نے گالیاں دینے سے منع کیا تو اس نے مجھے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس کی اطلاع میں نے سپرٹنڈنٹ اور چیف چکر کو دی جنہوں نے داد رسی کرنے کی بجائے خاموشی اختیارکر لی۔
متاثرہ حوالاتی نے تحریرکیا ہے کہ ہیڈ وارڈن نے جیل کے اندر جنگل کا قانون نافذ کررکھا ہے ، سب اچھا کرنے والے حوالاتیوں کو ہر قسم کی سہولت میسر ہے جبکہ جیل ہیڈ وارڈن کے ساتھ معاملات نہ کرنے والوں کے لئے ڈسٹرکٹ جیل کو گوانتا موبے کے قیدیو ں کی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، متاثرہ حوالاتی نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب، چیف سیکرٹری پنجاب، آئی جی جیل خانہ جات سے انکوائری کروانے اور تشدد کرنے والے شہباز نامی ہیڈ وارڈن کو نوکری سے برخواست کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
موقف جاننے کے لئے ڈسٹرکٹ جیل جہلم کے سپرٹنڈنٹ سے رابطہ قائم کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ شکایت میرے علم میں آئی ہے جس پر فوری نوٹس لیتے ہوئے ہیڈ وارڈن کو بارک سے ہٹا کر باہر تعینات کر دیا گیاہے اور اعلیٰ افسران سے وارڈن کے خلاف کارروائی بابت چٹھی لکھ دی ہے ، میرٹ پر انکوائری کرنے کے بعد کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دی جائے گی۔