قلعہ روہتاس اسلامی فوجی فن تعمیر کا شاہکار

تحریر: ایم جاوید اقبال

0

عالمی ورثہ دستاویز نمبر 586 یونیسکو کے مطابق قلعہ روہتاس برصغیر میں اسلامی فوجی آر کی ٹیکچر کا سنٹرل اور ساؤتھ ایشیا میں خوبصورت قلعہ ہے جو کہ دریائے کہام کے کنارے واقع ہے۔ ورلڈ ہیریٹیج کی یہ کلچرل سائٹ دینہ ریلوے سٹیشن سے 8 کلومیٹر دور واقع ہے اور 70 ایکڑ پر محیط گیریژن اور مسلم فوجی تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔

تاریخ اور مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت، شان و شوکت کا حسین شاہکار اور عظمت رفتہ کی عظیم یادگار ہے۔ یہ قلعہ ٹلہ جوگیاں سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔ شمال اور مغرب میں دریا سے محفوظ ہے جبکہ مشرق اور جنوب میں اونچی پہاڑیاں ہیں یہ عمارت ایکٹ 1975ء کے تحت محفوظ بنا کر آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ آف پاکستان کے حوالے کی جا چکی ہے۔

یہ قلعہ جہلم سے مغرب کی طرف راولپنڈی سے 103 کلو میٹر دور واقع ہے۔ یہ قلعہ شیر شاہ سوری نے 948ھ بمطابق 15 مئی 1541ء کو شروع کروایا اور اس کی تعمیر شیر شاہ سوری کی وفات کے بعد مکمل ہوئی۔ جنگی فن تعمیر کا یہ نادر نمونہ دینہ سے جنوب کی جانب 9اعشاریہ8کلو میٹر راولپنڈی سے 104کلو میٹر اور جہلم سے شمال مغرب کی جانب 22 اعشاریہ 8 کلو میٹر ہے۔ یاد رہے کہ یہ فاصلہ گوگل سرچ انجن کے مطابق ہے۔

تاریخ جہلم صفحہ 137کے مطابق اس قلعے پر چالیس لاکھ پچیس ہزار روپے جبکہ وقائع جہانگیری کے مطابق اس کی لاگت 34 لاکھ25ہزار روپے ہے۔ تاریخ جہلم کے صفحہ 159کے مطابق قلعے کا رقبہ4کلو میٹرتقریباً ڈھائی مربع میل ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 2660 فٹ ہے۔

سلطان شہباز اپنی کتاب ”تاریخ جہلم‘‘ صفحہ 150 پر رقمطراز ہیں کہ ”قلعہ روہتاس میں 12 دروازے 68 برج 18856 کنگرے اور تمام فصیلوں کی مجموعی سیڑھیاں8500ہیں۔ فصیلیں13تا15میٹر (45 تا 50 فٹ) چوڑی اور 27 تا 30 میٹر (90 تا 100 فٹ) بلند ہیں جبکہ فصیل کی مجموعی طوالت 12 میل کے الگ بھگ ہے۔ فصیل کی اونچائی 10 اعشاریہ 5 سے لے کر 18 اعشاریہ 28 میٹر تک ہے۔

یہ قلعہ شیر شاہ نے فوجی ضروریات کے تحت بنوایا اور اس کے جاہ و جلال، دبدبے اور سطوت کی یاد دلاتا ہے۔ اس قلعے کو مشہور افغان بادشاہ فرید خان المعروف شیر شاہ نے اپنے قبضے میں لیا جب مغل بادشاہ ہمایوں کو شکست دے کر روہتاس پر قبضہ کے بعد پنجاب کی طرف بڑھا تو ہمایوں ایران کی طرف نکل گیا۔

شیر شاہ نے سوچا، اگر ہمایوں واپس آیا تو یقیناًعلاقے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کیلئے گکھڑ قبیلے کا تعاون ضرور حاصل کرے گا چنانچہ اسی خدشے کے پیش نظر اس نے کوہستان نمک کے پہاڑی سلسلے کو قلعے کی تعمیر کیلئے منتخب کیا جس نے شیر شاہ کی فتح اول کی یادگار کے طور پر اس وقت لاکھوں روپے خرچ کرکے قلعہ تعمیر کروایا۔ قلے کی تعمیر افغانی، ایرانی اور فوجی طرز تعمیر پر کی گئی۔

اس خطے کی دفاعی اہمیت کے پیش نظر ماضی کے حکمرانوں نے اس علاقے کو ہمیشہ خصوصی اہمیت دی۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ شمال مغرب سے آنے والا ہر حملہ آور پہاڑی علاقے سے اپنی فوج دفعتاًپنجاب کے بیچوں بیچ لا سکتا ہے اور اس کی نقل و حرکت کا کسی کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سکندر اعظم بھی اسی راستے سے پورس کے ساتھ جنگ کیلئے جہلم پہنچا۔ اس لیے اس قلعے کی تعمیر خالصتاً دفاعی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی۔

یہ عظیم قلعہ 175 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے، دیواروں کی چوڑائی 35 سے 45 فٹ اور اونچائی 70 سے 90 فٹ ہے۔ ایک روایت کے مطابق 1812ء میں کشمیر پر دوسری مرتبہ حملے کے موقع پر رنجیت سنگھ نے اس قلعے کو اپنا مرکز بنایا۔ بعد ازاں قلعے کے رقبے میں اضافہ کر دیا گیا اور اس اضافے کے بعد اس کا رقبہ1356 ایکڑ ہو گیا۔

اس اضافی تعمیر کو شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ سوری نے مکمل کیا۔ اس تاریخی عمارت کے 6 دیو ہیکل دروازے ہیں۔ بادشاہی دروازہ، کاہلی دروازہ، طلائی دروازہ، لنگر خانہ شاہ چاند ولی اور شاہی محل لنگر خانہ، باؤلی اور شاہی باؤلی، شیر پنجرا، پھانسی گھاٹ اور شاہی مسجد بھی موجود ہے۔ بڑی باؤلی کی پانی تک پہنچنے کیلئے تقریباً 165 سیڑھیاں تھیں جو کہ اب 132 رہ گئی ہیں جبکہ کنویں کی گہرائی قریباً300فٹ ہے، دوسری باؤلی قدرے چھوٹی مگر نہایت خوبصورت ہے۔ یہ شاہی باؤلی ہے اور اس کی طرف 60 سیڑھیاں ہیں اور شاہی افراد کے زیر تصرف تھیں۔

مغلوں کے زمانے کی عمارتیں بھی یہاں موجود ہیں جو اکبر بادشاہ کے گورنر مان سنگھ نے تعمیر کروائیں۔ ان میں سے رانی محل نہایت خوبصورت ہے۔ رانی محل اور بادشاہ مسجد گیٹ کے بالکل ساتھ واقع ہیں۔ الغرض یہ عمارت اپنے وقت کے طرز تعمیر کے شاندار نقوش لیے ہوئے ہے۔ شیر شاہ نے محض پانچ سال حکومت کی کہ اسے اچانک موت نے آ لیا مگر وہ حکمرانی کے انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔ یہ قلعہ 4 سال 7ماہ اور 21 دن میں مکمل ہوا۔

اس کا محل وقوع شرقاً غرباً ہے۔ طول بلد 73 اعشاریہ 49 اور عرض بلد 32 اعشاریہ 55 ہے اور ٹلہ جوگیاں کوہستان میں جی ٹی روڈ سے نظر آتا ہے۔ ٹلہ جوگیاں میں ہی شاہ مراد خان پوری کا مزار تکیہ شاہ مراد بھی واقع ہے۔1997ء میں یہ قلعہ عالمی ورثے کی فہرست میں دستاویز نمبر 586 کے تحت آ گیا۔ آج کل یہ قلعہ یونیسکو کی زیر نگرانی ہے۔

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Get real time updates directly on you device, subscribe now.

اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.