جہلم: صارفین بجلی و گیس کے موصول ہونے والے اپنے ماہانہ بل یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی کے لئے کس بینک سے رجوع کریں، صارفین گیس و بجلی ہر ماہ موصول ہونے والے بلوں کی رقومات جمع کرانے کے لئے مختلف بینکوں کی برانچز اورڈاکخانوں کے مابین شٹل کاک بنا دیئے جاتے ہیں۔
مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ایک بینک والا بل جمع کرانے والے صارف کو دوسرے بینک کی برانچ میں جا کر بل جمع کروانے کا راستہ دکھا دیتا ہے ، چند ماہ قبل تک ڈاکخانوں میں بھی یوٹیلیٹیز بل جمع ہوتے تھے، جس سے صارفین بجلی و گیس کو ایک سہولت میسر تھی۔
تاہم گزشتہ برس سے یہ بات اب منظر عام پر آئی ہے کہ ڈاکخانے کے ملازمین، مختلف بینکوں کی برانچز میں تعینات کیشئر حضرات یہ کہہ کر صارفین سے جان چھڑا لیتے ہیں کہ گیس اور بجلی کے بل جمع کرنے کیلیئے ہمارے پاس کوئی اضافی سٹاف موجود نہیں اور نہ ہی حکومت کی طرف سے یا واپڈا ، اور گیس کے محکموں کی جانب سے بل جمع کرنے کے عوض کوئی معاہدہ یا معاوضہ وغیرہ دیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افرادنے صارفین گیس و بجلی کی شکایات کو جائز اور درست قرار دیتے ہوئے حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوٹیلیٹز بلوں کی ادائیگی کے حوالے سے واضح اور دوٹوک پالیسی وضع کریں، کیونکہ ماہانہ بلوں کی ادائیگی کرانے کے حوالے سے ایک دن کی تو بات نہیں۔
حکومت کو چاہیئے کہ وہ تمام بینکوں کی برانچز اور پاکستان پوسٹ آفس کے دفاتر اور برانچ پوسٹ آفسز میں تعینات اضافی عملہ کیلئے سرکاری طور پر ایک شرح منافع کی حد مقرر کریں، یاماہانہ بلوں کی وصولی پر ہونے والی محنت کی اجرت کی ادائیگی کو یقینی بنائیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بینک والے اور پوسٹ آفس والے صارفین کو پرائیویٹ طور پر انٹرنیٹ کی دکانوں پر بل جمع کرانے کا بھی مفت مشورہ بڑی دلیری کے ساتھ دیتے ہیں۔
صارفین ہزاروں روپے کی ادائیگی انٹرنیٹ کی مقرر کردہ پرائیویٹ دکانوں پر جمع کروانے کو عدم تحفظ قرار دیتے ہیں کیونکہ ماضی میں متعدد واقعات روشن مثال کے طرح موجود ہیں کہ صارفین کو بلوں کی ادائیگی پر پرائیویٹ دکانداروں نے مہریں تو لگا دیں، مگر ان کی رقومات متعلقہ محکموں تک نہیں پہنچی سکیں جس کیوجہ سے صارفین اضافی بل جمع کروانے پر مجبور ہوئے۔