جہلم/سرے:برطانیہ میں سرے کے علاقے میں قتل ہونے والی دس سالہ بچی سارہ شریف کے والد، سوتیلی والدہ اور بہن بھائی پاکستان پہنچ کر روپوش ہوگئے ہیں۔
ذرائع کے طابق دس سالہ سارہ شریف کو اس کے والد نے ہی قتل کیا جس کی تلاش میں برطانیہ کی ایجنسیز پاکستان کے ساتھ رابطہ میں ہیں۔
جہلم کے علاقہ کڑی جنجیل سے تعلق رکھنے والے ملزم ملک عرفان نے 2009 میں برطانیہ میں پولش خاتون اوگلا سے شادی کی جس سے ایک بیٹی اور بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ سال 2017 میں عرفان نے اوگلا کو طلاق دے دی۔ طلاق کے بعد دونوں بچوں کو والد کی تحویل میں دے دیا گیا۔
ملک عرفان اپنی دوسری بیوی بینش بتول اور بچوں کے ساتھ سرے کے علاقہ میں شفٹ ہوا جہاں 10گست 2023 کو بچی کے قتل کا واقعہ پیش آیا۔
بچی کی موت کے دوسرے دن ہی ملک عرفان برطانیہ چھوڑ کر فیملی کے ہمراہ جہلم پہنچا اور کہیں روپوش ہوگیا۔ برطانوی اخبارات کے مطابق خاندان نے ٹکٹس 9 اگست کو ہی بک کر لیے تھے۔
ایف آئی اے حکام نے مقامی پولیس کی مدد سے ملک عرفان کی تلاش شروع کر رکھی ہے۔
بی بی سی کے مطابق برطانوی حکام کو عرفان، اس کا 28 سالہ بھائی فیصل ملک اور 29 سالہ بینش بتول مطلوب ہیں۔
جہلم میں ذرائع کا کہنا ہے کہ عرفان اپنی اہلیہ اور چار بچوں کے ساتھ آبائی علاقے میں پہنچے تھے تاہم اب وہ اپنی مقامی رہائش گاہ سے بھی غائب ہیں۔
عرفان کے بھائی عمران نے برطانوی اخبار کو بتایا کہ اوگلا سے شادی کے بعد عرفان کا خاندان سے رابطہ ختم ہو چکا تھا۔ جب وہ جہلم آیا تو وہ اپنے بچوں کے بغیر ہی خاندان کے لوگوں سے ملنے آیا لیکن اس کے بعد سے اس کا کچھ پتہ نہیں۔
عمران کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ عرفان اور باقی گھر والے میرپور آزاد کشمیر چلے گئے ہوں جہاں بینش کے والدین رہتے ہیں۔
برطانوی نیوز ویب سائٹ ’میل آن لائن‘ کے مطابق جہلم پولیس کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ پولیس کو اعلیٰ افسران نے عرفان شریف کو گرفتار کرنے کی ہدایت دی ہے۔
علاوہ ازیں گزشتہ روز جاری کردہ ایک اپ ڈیٹ میں سرے پولیس فورس کے ایک سینیئر رکن نے کہا کہ حکام سارہ کے والد، سوتیلی ماں اور چچا کی تلاش کر رہے ہیں۔
جاسوس سپرنٹنڈنٹ مارک چیپ مین نے کہا کہ پولیس نے ایک بریفنگ میں 3 لوگوں کی شناخت کی ہے جن سے وہ کیس کی تحقیقات کے حوالے سے بات کرنا چاہتے ہیں، ان میں عرفان شریف، ان کی پارٹنر بینش اور بھائی فیصل شامل ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پوسٹ مارٹم سے پتا چلا ہے کہ سارہ کے جسم پر کئی گہرے زخم تھے جوکہ طویل عرصے سے موجود تھے، اس نئی معلومات نے تفتیش کی نوعیت کو نمایاں طور پر تبدیل کردیا ہے۔
مارک چیپ مین نے شہریوں سے بھی اپیل کی کہ اگر کسی کے پاس اس کیس کے حوالے سے معمولی سے معمولی معلومات بھی موجود ہے تو شیئر کریں۔
اس سے پہلے خبرسامنے آئی تھی کہ مقتول بچی سارہ شریف کے جاننے والے 3 افراد نے پاکستان کے یک طرفہ ٹکٹس بک کروائے تھےاور تینوں سارہ کی لاش ملنے سے ایک روز قبل ہی برطانیہ سے روانہ ہوگئے تھے۔
سارہ کی لاش 10 اگست کو سرے کاؤنٹی کے قصبہ ووکنگ میں گھر سے ملی تھی۔ قصبے کے ایک ٹریول ایجنٹ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا کہ سارہ کے جاننے والوں نے رابطہ کر کے بتایا تھا کہ انہیں 5 بچوں اور 3 بالغ افراد کیلئے ٹک بک کروانے ہیں۔ برطانوی پولیس نے اُس وقت تک ان افراد کے نام عام نہیں کیے۔
برطانوی اخبارات کا کہنا تھا کہ عرفان شریف 20 برس قبل برطانیہ آیا تھا اور وہ ٹیکسی چلاتا تھا۔ تاہم اخبارات کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپریل میں اس نے ساڑھے پانچ لاکھ پاؤنڈ سے سرے میں گھر خریدا تھا۔ جہاں وہ مقیم ہوئے۔