الوّ اور انصاف

تحریر: محمد امجد بٹ

0

طوطا اور مینا پرواز کر کے گئے ۔انہوں نے پرواز کی تھکن مٹانے کے لئے تھوڑی دیرسستانے کا ارادہ کیا ۔اور ایک درخت پر بیٹھ گئے۔طوطا اور مینا جس درخت پر بیٹھے اس کے آس پاس کا علاقہ ویران اور کھنڈر بن چکا تھا۔وہ آپس میں اس بستی کے اجڑنے اور کھنڈر بننے کے بارے میں گفتگو کرنے لگے۔یہ بستی کیسے اجڑی ہو گی۔وہ بہت سے امور زیرِ بحث لائے ۔

کبھی سوچا یہاں بم دھماکے ہوئے ہوں گے۔ کبھی سوچاکہ کسی موذی وبائی مرض کا شکار ہو کر اس بستی کے لوگ مر گئے ہوں گے۔ کبھی ان کی سوچ کے دھارے میں آیا کہ اس بستی کو سیلاب نے کھنڈر بنا دیا ہو گا۔ کبھی ان کے ذہن میں اس بستی کا اجاڑ زلزلے کا سبب بنا۔ الغرض وہ اپنی پرواز کی تھکن مٹانے کے ساتھ ساتھ اس بستی کے اجڑنے کے اسباب سوچتے رہے۔

بلاآخر انہوں نے پرواز بھرنے کی تیاری کی اور بستی کے اجڑنے کی بحث کو سمیٹے ہوئے کہا کہ ضرور اس بستی میں الوّ کا بسیرا ہو گا جس کے نحوست سے یہ بستی اجڑ گئی ہے۔ ان کی یہ تمام گفتگو انکے اوپر کی ٹہنی پہ بیٹھا الوّ بھی سن رہا تھا۔ جوں ہی انہوں نے پرواز بھرنے کی کوشش کی تو الوّ فوراً ان کے پرواز کے آڑے آ گیا۔ الوّ نے آتے ہی مینا کو قابو کر لیا۔ الوّکی یہ حرکت طوطے کو ناگوار گذری ۔

طوطے نے الوّ سے کہا یہ کیا طوفانِ بد تمیزی ہے ؟، تم نے میری بیوی کا ہاتھ کیوں پکڑا؟، الوّ طوطے کی بات کو ٹوکتے ہوئے بولا۔ بیوی؟ کس کی بیوی؟ او جا جا اپنا کام کر یہ تیری نہیں میری بیوی ہے۔ الوّ کے اس دلیرانے جواب اور روّیے نے طوطے کے اوسان خطا کر دیئے۔طوطے نے الوّ کے سامنے بے بس ہوتے ہوئے انصاف کے حصول کے لئے دہلیزِ انصاف پر دستک دینے کا فیصلہ کر لیا ۔ طوطا اپنا کیس لے کر اربابِ انصاف کے پاس پہنچ گیا۔

بس کیا تھا اربابِ انصاف نے فوری انصاف دینے کے لئے الوّ کو نوٹس جاری کئے اور ایوانِ انصاف میں طلب کر لیا۔ الوّ نے نوٹس ملنے پر اپنے قانونی مشیروں سے صلاح مشورے کئے اور ایوانِ انصاف پہنچ گیا۔ ایوانِ انصاف میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے طوطے اور مینا کے وکلاء نے دلائل دینا شروع کر دیے۔ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی۔ طوطا انصاف کے حصول کے لئے پر امید تھا۔

الوّ بھی زنجیرِ عدل ہلانے کے بعد مطمئن نظر آ رہا تھا۔ یکدم آواز آئی ۔۔ طوطا ۔۔الو ّ ۔۔حاضر ہوں۔ دونوں انصاف کے لئے پر امید اندر چلے گئے۔۔ صاحبِ انصاف نے پوچھا کیا دونوں فریقین حاضر ہیں ؟، جواب ملا حضور حاضر ہیں۔۔ صاحبِ انصاف نے انصاف نامہ پڑھنا شروع کیا۔۔ ہم نے دونوں فریقین کے وکلاء کے دلائل سنے۔۔ اب انصاف کے تقاضے پورے کیے جاتے ہیں۔

بحث و دلائل کے بعدصاحبِ انصاف اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ مینا طوطے کی نہیں بلکہ الوّ کی بیوی ہے اور طوطے کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ آئندہ مینا کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا اور نہ ہی الوّ کو تنگ کرے گا۔

یہ فیصلہ سنتے ہی طوطا ایوانِ انصاف میں گر گیا۔۔ الوّ نے اس کو سہارا دیتے ہوئے کہا طوطے میاں کیا ہوا؟ طوطے نے کہا الوّ یار توتو جانتا ہے کہ مینا تیری بیوی نہیں بلکہ میری بیوی ہے۔ اسکا رنگ ،نسل، حسب نسب میرے ساتھ ملتا ہے۔۔ پھر تو نے یہ ظلم کیوں کیا؟ الوّ نے کہا کہ بیشک یہ تیری بیوی ہے۔۔ مگر ایک بات یاد رکھ ۔۔ بستیاں نہ زلزلوں ، نہ بم دھماکوں،نہ سیلابوں ، نہ موذی وباوئں کے پیھلنے سے اور نہ الوّوں کے بسیروں سے اجڑتی ہیں۔

بستیاں تو تب اجڑتی ہیں جب صاحبِ انصاف ایسے فیصلے کرتے ہیں۔۔ یہ انصاف بکاؤ ہے ۔۔ آئیے ۔۔ آئیے۔۔ جلدی بولی لگائیے۔۔پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی ۔۔۔ہم اپنا انصاف بیچ رہے ہیں ۔۔ ہمارے انصاف کو خریدنے والوں کی بھیڑ لگی ہے۔

آگے بڑھئیے ۔۔ دوسرے آنے والوں کو راستہ دیجئیے ۔۔ یہاں آپ کو ہر قیمت پر انصاف ملے گا۔۔ انصاف ملے گا۔۔ ضرور ملے گا مگر مرنے والے مرتے رہیں گے۔۔ کٹتے رہیں گے۔۔ حملے ہوتے رہیں گے۔۔ معاشرے کے عکاسوں کی عکس بندی جاری رہے گی۔۔ زندہ ہیں، زندہ ہیں کے نعرے لگتے رہیں گے۔۔ اقتدارو انصاف کے ایونوں میں احتجاج ہوتے رہیں گے۔۔ دھرنے دیتے رہیں گے۔۔ قرادادیں پیش ہوتی رہیں گی۔۔ نظام چلتا رہے گا۔ ۔ اقتدار تبدیل ہوتے رہیں گے۔۔ بستیاں اجڑتی رہیں گی۔۔ آخر کب تک؟؟؟؟

کب ملے گا انصاف ؟؟؟کب جاگے گا صاحبِ انصاف ؟؟؟کب ملیں گی سزائیں؟؟؟کب ختم ہوں گے انتظار کے دن؟؟؟اگر انصاف الوّ کی طرح دیا گیا تو بپھررررر۔۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Get real time updates directly on you device, subscribe now.

اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.