سارہ شریف کے والد، سوتیلی ماں اور چچا پر قتل کا مقدمہ، ’انہوں نے بچی کو مرنے دیا‘
دس سالہ بچی سارہ شریف کے قتل کا الزام اس کے والد عرفان شریف، سوتیلی والدہ بینش بتول اور چچا فیصل پرعائد کر دیا، برطانیہ سے پاکستان آکر روپوش ہوجانےوالے تینوں افراد کو 2 روز قبل گرفتار کیاگیا تھا۔
سارہ کی لاش 10 اگست کو ووکنگ میں اُس کے گھر سے ملی تھی، گرفتار کیے جانے والے والد، سوتیلی والدہ اور چچا 5 بچوں سمیت 9 اگست کو برطانیہ سے پاکستان روانہ ہوئے تھے۔
کراؤن پراسیکیوشن سروس نے سارہ کے 41 سالہ والد عرفان شریف، 29 سالہ بینش بتول او 28 سالہ بھائی فیصل ملک کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کی منظوری دے دی۔ ان پر ایک بچے کی موت کا سبب بننے یا اسکی اجازت دینے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔
تینوں کو گیٹ وک ائرپورٹ سے اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ دبئی کی ایک پرواز سے اتر رہے تھے۔
سرے پولیس نے تصدیق کی ہے کہ تینوں ملزمان کو جمعے کے روز گلڈفورڈ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
سارہ کی پولش والدہ اولگا شریف کو اس تازہ ترین پیشرفت سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔
اسکول کی طالبہ سارہ کی لاش 10 اگست کو اس کے گھرسے ملی تھی، پوسٹ مارٹم کے بعد علم ہوا کہ اسے بہت زیادہ چوٹیں آئی تھیں۔
لاش ملنے سے ایک روز قبل والد، سوتیلی والدہ اور چچا ایک سے 13 سلا تک کی عمر کے 5 بچوں کے ہمراہ پاکستان پہنچے جہاں ایک ماہ روپوشی میں گزار کر وہ برطانیہ پہنچے تھے۔
تینوں دبئی سے امارات اے 380 ائربس کے ذریعے واپس آئے اور مقامی وقت کے مطابق شام ساڑھے سات بجے کے بعد لندن گیٹ وک کے رن وے پر اترے۔
تینوں کے ہمراہ پاکستان پہنچنے والے سارہ کے پانچ بہن بھائیوں کو عارضی طور پرحکومت کے زیرانتظام بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے میں بھیج دیا گیا۔
سارہ کی والدہ نے اولگا نے ووکنگ کے قریب واقع پرسکون گاؤں ہارسل میں سرخ اینٹوں سے بنے 550,000 پاؤنڈ کے گھر کا دورہ کیا اور بیٹی کی یاد میں پھول چڑھائے۔
36 سالہ اولگا کا کہنا تھا کہ ان کی زندگی پھر کبھی پہلے جیسی نہیں رہے گی، سارہ ایک حیرت انگیز بچی تھی۔
سرے پولیس اور سسیکس پولیس کی میجر کرائم ٹیم کے ڈیٹیکٹیو سپرنٹنڈنٹ مارک چیپمین کا کہنا تھا کہ سرے پولیس کی جانب سے میں سارہ کی المناک موت پر دلی تعزیت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ اس مشکل وقت میں ہم اس کی والدہ کے ساتھ ہیں۔ ہم تباہ کن واقعے کے مقامی کمیونٹی پر پڑنے والے اثرات کو بھی پوری طرح سمجھتے ہیں۔
گھر والے برطانیہ سے کیوں فرار ہوئے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے باقی تمام گھر والے برطانیہ سے کیوں فرار ہوئے؟
سارہ کے قتل سے ایک دن قبل ہنگامی بنیادوں پر تمام فیملی پاکستان روانہ ہوگئی تھی۔ جس پر سارہ کے دادا کا کہنا ہے کہ سارہ کی موت ایک حادثہ ہے اور ان کے بیٹے کے فوراً پاکستان روانہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ ڈر گیا تھا جس کی وجہ سے وہ پاکستان آگیا۔
’جب انسان کو دماغ پر چوٹ لگے تو اسے سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کرے اور وہ ڈر کے مارے پاکستان بھی اسی لیے آیا کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آیا، میں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا سامنا کرے اور کیس لڑے۔‘
واضح رہے کہ برطانوی پولیس نے سارہ کے والد عرفان شریف، سوتیلی ماں بینش اور چچا فیصل کو مطلوب قرار دے کر پاکستان میں جہلم پولیس سے بھی رابطہ کیا تھا، مگر جہلم پولیس مطلوب ملزمان کو تحویل میں نہ لے سکی اور وہ پاکستان سے بھی فرار ہو گئے۔
سارہ شریف کے والد 41 سالہ عرفان شریف، ان کی اہلیہ 29 سالہ بینش بتول اور عرفان کے بھائی 28 سالہ فیصل ملک کو گیٹوک ایئرپورٹ سے برطانیہ کے مقامی وقت کے مطابق شام سات بج کر 45 منٹ پر اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ دبئی سے آنے والی پرواز سے اتر رہے تھے۔
اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے ترجمان جہلم پولیس کا کہنا تھا انہیں مطلوب افراد کو ٹریس کرنے کا کہا گیا تھا جس کے لیے انہوں نے پوری کوشش کی مگر وہ انہیں ٹریس کرنے میں ناکام رہے۔
عرفان شریف کون ہے؟
جہلم کے علاقہ کڑی جنجیل سے تعلق رکھنے والے ملزم ملک عرفان نے 2009 میں برطانیہ میں پولش خاتون اوگلا سے شادی کی جس سے ایک بیٹی اور بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ سال 2017 میں عرفان نے اوگلا کو طلاق دیدی۔ طلاق کے بعد دونوں بچوں کو والد کی تحویل میں دے دیا گیا۔
برطانوی اخبارات کے مطابق عرفان شریف 20 برس قبل پاکستان سے برطانیہ آیا تھا، وہ ٹیکسی چلاتا تھا۔ اپریل میں اس نے ساڑھے 5 لاکھ پاؤنڈ سے سرے میں گھر خریدا تھا۔ جہاں وہ اپنی دوسری اہلیہ بینش اور بچوں کے ساتھ مقیم ہوئے۔